ایک دکاندار اور عورت کی کہانی
یہ ایک فرضی کہانی ہے اس کا مقصد صرف اور صرف پیغام پہنچانا ہے
گراہک نے دکان میں داخل ہو کر دکان دار سے پوچھا کیلے کا کیا بھاؤ لگایا ہے دکاندار نے جواب دیا کیلے بارہ درہم اور سیب دس درہم
اتنے میں ایک عورت دکان میں داخل ہوئی اور کہا مجھے ایک درجن کیلے چاہیے کیا بھاؤ ہے دکان دار نے کہا کیلے تین درہم سیب دو درہم اور الحمدللہ پڑھا
دکان میں پہلے سے موجود گراہک دکاندار کو کھا جانے والی غضب ناک نظروں سے دیکھا اس سے پہلے کہ کچھ بولتا
دکاندار نے گراہک کو آنکھ مارتے ہوئے تھورا انتظار کرنے کو کہا
عورت خریداری کر کے خوشی خوشی دکان سے نکلتے ہوئے کہنے لگی یا اللہ تیرا شکر ہے کہ میرے بچے انہیں کھا کر بہت خوش ہوں گے
عورت کے جانے کے بعد
دکاندار نے پہلے سے موجود گراہک کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا میں نے تجھے کوئی دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی یہ عورت چار یتیم بچوں کی ماں کہیں سے بھی کسی سے بھی مدد لینے کو تیار نہیں میں نے کئی بار کوشش کی ہے لیکن ہر بار مجھے ناکامی ہوئی ہیں اب مجھے یہی طریقہ سوجھا ہے کہ جب کبھی بھی آئے تو اسے کم سے کم دام میں چیزیں لگا کر دوں میں چاہتا ہوں کے اس کا بھرم بھی قائم رہے اور اسے لگے کی وہ کسی کی محتاج نہیں ہے
میں یہاں تجارت اللہ کے لئے کرتا ہوں اور اسی کے خوشنودی کا طلبگار ہوں اور دکاندار کہنے لگا کہ یہ عورت ہفتے میں ایک بار آتی ہے اور اللہ گواہ ہے جس دن یہ عورت آجائے اس دن ہماری خریداری بہت زیادہ ہو جاتی ہے اور اللہ کی غیبی خزانے سے منافع تو چند ہوتا ہے
گراہک کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اس نے آگے بڑھ کر دکاندار کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا لوگوں کی ضرورت پورا کرنے میں جو لذت ملتی ہیں اسے وہی جان سکتا ہے جس سے آزمایا ہو
میرے پیارے بھائیو اور دوستوں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں اور یقین کیجئے کہ آپ جتنا غریبوں پر خرچ کریں گے اتناہی اللہ آپ کو اور دے گا ہمارے معاشرے میں ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو ہمارے مدد کے طلبگار ہیں لیکن شرم کے مارے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے کسی سے مانگنے نہیں سکتے ہمیں ایسے لوگوں کی اس طرح سے مدد کرنی چاہئے کہ انہیں محسوس بھی نہ ہو کہ ان کی مدد کر رہے ہیں اور ان کی ضرورتیں بھی پوری ہو جائیں اللہ ہم سب کو سمجھنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے
0 تبصرے