ایک بھکارن کی قسمت کیسے بدل گئی

یک بھکارن جو بہت حسین اور خوبصورت تھی در در بھیک مانگ کر اپنا پیٹ بھرتی تھی ایک دن اتفاق سے کسی بادشاہ کا گزر وہاں سے ہوا اس کی نظر جو بھکارن پر پڑی تو وہ برا حیران ہوا اگرچہ وہ میلے کچیلے کپڑے میں تھی مگر بادشاہ سے اس کا حسن چھپا نہ رہ سکا پہلی نظر میں ہی وہ اسے پسند آگئی وہ اسے دل دے بیٹھا اس پر اپنا دل ہار گیا

بادشاہ نے اپنے ملازموں کو حکم دیاک

 اس عورت کو شاہی سواری میں سوار کر کے محل میں لے آؤ او  مشاطہ یعنی نائن عورت جو اور عورتوں کو بناتی سنوارتی سنگھار کرنے والی اسے کہو کہ اسے نہلا دھلا کر اور سجا سنوار کر اسے ہمارے سامنے پیش کرے

 بادشاہ کے حکم کی تعمیل ہوئی

 جب وہ بھکارن عمدہ قسم کے لباس اور آرائش کے ساتھ بادشاہ کے سامنے پیش کی گئی تو وہ اس پر فریفتہ ہو گیا 
فوراً اس کو اپنی ملکہ بنا لیا 
اب وہ بھکارن عیش و آرام کے ساتھ محل میں زندگی گزارنے لگی بادشاہ نے اس کے لئے کسی بھی چیز کی کمی نے رکھے اسے دنیا کی ہر عیش و عشرت مہیا کی بادشاہ اسے بڑے پیار اور محبت سے اور آرام سے رکھتا تھا

 مگر اس کے باوجود وہ روز بروز دبلی 

 دبلی پتلی اور کمزور ہوتی جاتی تھی اس کی صحت گرتی چلی جارہی تھی اور وہ کچھ کچھ اداس ہی رہنے لگی

ایک دن بادشاہ نے اس سے پوچھا

 کیا بات ہے بیوی اتنی کمزور ہوتی جا رہی ہو کیا تمہاری خوشیوں میں کوئی کمی رہ گئی ہے یا کوئی ایسا غم ہے تمہیں جو تم مجھے نہیں بتانا چاہتی آخر تمہیں غم کیا ہے کونسا غم تمہیں اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے جو تم یو دبلی پتلی ہوتی جا رہی ہو اگر کوئی بیماری ہے تو اس کا علاج کرواؤں اگر کوئی غم ہے تو اسے بھی دور کیا جائے بھکارن نے کہا جہاں پناہ مجھے نہ کوئی غم ہے اور نہ کوئی بیماری آپ صرف اتنا کیجیے آپ مجھے اپنے ساتھ کھانا کھانے پر مجبور نہ کیجئے بلکہ میرا کھانہ الگ لگا دیا جاۓ اور میں سب سے الگ تھلگ کھانا کھاؤ اس کے بعد نہ میں کمزور ہوں گئ اور نہ مجھے کوئی غم ہوگا بادشاہ نے بات سنی تو بڑا حیران ہوا بادشاہ نے حکم دیا اور اس بھیکارن کا کھانا الگ سے آنے لگا اس کے بعد وہ روز بروز صحت مند اور تندرست ہونے لگی بادشاہ نے

 خادم سے پوچھا آخر یہ الگ کھانے میں کیا کرتی ہیں

 ا لگ کھانے میں آخر کیا راز ہے جو یہ روز بروز تندرست ہوتی جا رہی ہیں انہوں نے عرض کیا ہمیں اس کا علم نہیں بس اتنا معلوم ہے کہ جب کھانا آتا ہے تو وہ اسے طاقوں میں چنوا دیتی ہیں اور کھڑکیوں کے پردے ڈلوا دیتی ہے اس کے بعد ہمیں نہیں معلوم کہ کیا کرتی ہیں اور کس طرح کھاتی ہیں 

                                 ایک دن جب وہ کھانے میں

 مصروف تھی بادشاہ نے چپ کر پردے کے پیچھے سے جھانکا تو کیا دیکھتا ہے کہ بھکارن باری باری ہر تاق کے سامنے جاتی ہیں اور کہتی ہیں خدا کی راہ میں مجھے کچھ دے دو ایک ٹکڑا کھانے کا دے دو اور پھر اس میں سے ایک لقمہ اٹھا کر کھا لیتی ہیں پھر اسی طرح چلتی ہوئی دوسری طاق کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے اللہ کے نام پر ایک نوالہ دے دو اس میں سے بھی ایک لقمہ کھا لیتی ہیں اسی طرح باری باری سب طاقوں سے مانگتی پھرتی ہیں اور جب پیٹ بھر جاتا ہے تو کنیزوں کو آواز دیتی ہیں کھانا واپس اٹھا کر لے جائیں اور ہاتھ منہ دھو کر باہر آ جاتی ہے

 جب بادشاہ نے یہ حال دیکھا تو سمجھ گیا 

کہ ابھی تک اس کے بھیک مانگنے کی عادت نہیں گئی اگرچہ میں نے اس کو بھکارن سے ملکہ بنا دیا مگر اس کی فطرت نہیں بدلی اس نے اسی دن اس بھیکارن کو محفل سے نکال دیا اور پھر کبھی بھی اس کا نام تک نہ لیا